۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 368209
2 مئی 2021 - 17:43
ظفر عباس رضوی

حوزہ/ جب ہم مولائے کائنات کے عمل پہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آپ کے عمل میں پتہ نہیں کون سا خلوص اور اخلاص پایا جاتا ہے کہ ہر عمل قبول بارگاہ الہی نظر آتا ہے۔

تحریر: مولانا سید ظفر عباس رضوی قم المقدسہ

حوزہ نیوز ایجنسی ہم میں سے بہت سے لوگ ہیں جو اپنی زندگی میں بہت سے نیک اور اچھے اعمال انجام دیتے ہیں، اور بعض تو واقعا بہت ہی زیادہ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرتے ہیں ابھی موجودہ حالات میں بہت سے اللہ والے ایسے ہیں جو دوسروں کی مدد کررہے ہیں اور ہر لحاظ سے خیال رکھ رہے ہیں، بہت سی تنظیمیں اور کمیٹیاں ہیں جن کا کام ہی لوگوں کی مدد کرنا ہے۔
اسی طرح بہت سے لوگ ہیں جو اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ عبادت و دعا اور نماز و استغفار میں گزارتے ہیں ہر وقت ذکر اور تسبیح میں مشغول رہتے ہیں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں۔
اور ایسے بھی لوگ مل جائیں گے جو ہر مناسبت اور معصومین علیہم السلام کی ولادت و شہادت پہ پروگرام کرتے ہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام کا غم مسلسل دو مہینہ سے زیادہ مناتے ہیں، اسی طرح بہت سے لوگ زیارت پہ جاتے ہیں حج پہ جاتے ہیں بعض لوگ کئی کئی مرتبہ جاتے ہیں لیکن کیا کوئی ایسا ہے جو پورے یقین سے یہ بات کہہ سکے کہ اس نے جو بھی کیا ہے خدا نے اس کو قبول کر لیا ہے، کوئی بھی انسان چاہے جتنی بھی نیکی کر لے لیکن اس یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ خدا نے اسے قبول کر لیا ہے، 
لیکن جب ہم مولائے کائنات کے عمل پہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آپ کے عمل میں پتہ نہیں کون سا خلوص اور اخلاص پایا جاتا ہے کہ ہر عمل قبول بارگاہ الہی نظر آتا ہے چاہے جو بھی عمل ہو سب قبول ہے، اور اس کی تایید بھی موجود ہے،
حالت رکوع میں انگوٹھی دیا آیت نازل ہوگئ:
"إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ"(مائدہ 55)
"ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں"
سائل کو روٹی دیا تو پورا سورہ نازل ہو گیا اور اس میں بھی خدا امیرالمؤمنین اور اہل بیت علیہم السلام کے اخلاص کا ذکر کررہا ہے
"إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا"(انسان 9)
"ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمہیں کھلاتے ہیں نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ ہی شکریہ"
شب ہجرت پیغمبر اکرم(ص) کے بستر پہ سوئے تو آیت نازل ہوگئی 
"وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ"(بقره 207)
"اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں"
مباہلہ میں گئے تو نفس رسول قرار پائے اور اس میں بھی آیت نازل ہوئی: 
"فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ"*(آل عمران 61)
"پیغمبر علم آجانے کے بعد جو لوگ آپ سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں"
 جنگ خندق کی ایک ضربت کے لئے پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:
"لضَربَةُ عَلِی یَومَ الخَندَقِ اَفضَلُ مِن عِبادَةِ الثّقلین"(اقبال الاعمال ج 1 ص 467 ناشر- دارالکتب الاسلامیہ تہران)
"خندق کے دن علی کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے بہتر ہے"
پتہ نہیں کس خلوص سے امام علیہ السلام نے مارا تھا کہ ایک ضربت ثقلین کی عبادت پہ بھاری پڑ گئی بلکہ افضل ہوگئ،
جنگ خیبر کے لئے پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں:  
 "لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَداً رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ و يُحِبُّهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ كَرَّاراً غَيْرَ فَرَّارٍ لَا يَرْجِعُ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ"(کافی ج 15 ص 773 ناشر دارالحدیث قم)
"کل میں علم اس کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہوگا اور اللہ اور اس کے رسول اس کو دوست رکھتے ہوں گے، جو کرار اور غیر فرار ہے اس وقت تک نہیں پلٹے گا جب تک خدا اس کے ہاتھوں پہ فتح قرار نہ دیدے"
اللہ اور اس کے رسول کو تو بہت سے لوگ چاہتے ہیں اور دوست رکھتے ہیں لیکن کمال اور تعریف یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول بھی چاہتے ہوں،
اسی طرح سے جب آپ نے جنگ "ذات السلاسل" فتح کر لی اور واپسی میں ابھی مدینہ نہیں پہونچے تھے کہ سورہ "والعادیات" نازل ہوگئ( تفسیر نمونہ ج 27 ص 240 ناشر-دارالکتب الاسلامیہ تہران)
یہ کوئی معمولی بات نہیں  ہے کہ ہر عمل مورد تایید خدا اور رسول قرار پائے، اور ہر انسان کے عمل کی تایید خدا اور رسول کرتے بھی نہیں اس لئے کہ جب ہم آیت و روایت میں دیکھتے ہیں کہ خدا کس کے عمل کو قبول کرتا ہے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خدا سب کے عمل کو قبول نہیں کرتا بلکہ وہ خود فرماتا ہے:
"إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ"(مائدہ 27)
"خدا صرف صاحبان تقوی کے اعمال کو قبول کرتا ہے"
دوسری جگہ پہ فرماتا ہے 
"إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ"(فاطر 10) 
"پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ہیں اور عمل صالح انہیں بلند کرتا ہے"
خود مولائے کائنات فرماتے ہیں: 
"لَا يَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ التَّقْوَى وَ كَيْفَ يَقِلُّ مَا يُتَقَبَّلُ"(نہج البلاغہ حکمت 95)
"تقوی کے ساتھ کوئی عمل قلیل نہیں کہا جا سکتا ہے اور وہ عمل کیسے قلیل ہو سکتا ہے جو قبول ہو جائے"
قران کی آیتوں اور معصومین علیہم السلام کی حدیثوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اعمال کی قبولیت کا سبب تقوی ہے اور خود  تقوی معرفت سے پیدا ہوتا ہے 
پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں:
 "لِکُلِ شَیئٍ مَعدَنٌ وَمَعدَنُ اَلتَّقوَی قُلُوبُ اَلعَارِفِین"(مشكاة الانوار فی غرر الاخبار ص 256 ناشر- المکتبة الحیدریہ نجف)
ہر چیز کا معدن اور مخزن ہوتا ہے اور تقوی کا معدن و مخزن معرفت شناس لوگوں کا دل ہوتا ہے
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اَلتَقوَی مَاءٌ یَنفَجِرُ مِن عَینِ مَعرِفَةبِاللهِ تعالی"(مصباح الشریعہ ص 59 ناشر- اعلمی بیروت)
"تقوی ایسا پانی ہے جو معرفت خدا کے چشمہ سے جاری ہوتا ہے"
ان دونوں حدیثوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جتنی زیادہ معرفت ہوگی اتنا ہی زیادہ تقوی پیدا ہوگا، 
اب اسی سے مولائے کائنات کی معرفت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کے اندر کس قدر معرفت خدا پائی جاتی ہے کہ آپ امام المتتقین ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ جو امام المتتقین ہوگا پھر اس کے یہاں اتنا ہی زیادہ خلوص پایا جائے گا اور امام علی علیہ السلام کے ہر عمل کا قبول ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا کوئی بھی عمل خلوص سے خالی نہیں تھا، 
لہذا ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم اپنے کاموں میں اخلاص پیدا کریں اور صرف خدا کے لئے انجام دیں اس لئے کہ ثواب اور اجر خدا کو دینا ہے کسی اور کو نہیں، بسا اوقات یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ ہم اپنے کاموں کے انجام دینے میں لوگوں کی پسند کو زیادہ خیال کرتے ہیں اب ظاہر سی بات ہے کہ جب لوگوں کی خوشنودی کو نظر میں رکھیں گے تو پھر اس میں خلوص نہیں پایا جائے گا اور جب خلوص نہیں پایا جائے گا تو وہ قبول بھی نہیں ہو سکتا ہے اور جب قبول نہیں ہوگا تو پھر انجام دینے سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہے، اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم اپنے اعمال کس کے لئے انجام دیتے ہیں،
آخر میں خدا وند عالم سے دعا ہے کہ خدا محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں خاص طور مولائے کائنات امام علی علیہ السلام کے صدقہ میں ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اپنے کاموں میں اخلاص پیدا کر یں اور خدا کے لئے انجام دیں تاکہ ہمارے اعمال بھی خدا کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کر سکیں۔  
               

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .